صدیوں سے مہندی کو خواتین کے لیے آرائش و زیبائش کا قدرتی ذریعہ سمجھا جاتا ہے قدیم زمانے میں مہندی کے پتوں کو بھگویا جاتا تھا پھر اسے پیس کر اس کا آمیزہ بنایا جاتا تھا تب کہیں جاکر وہ مہندی لگانے کے قابل ہوتی تھی۔ وہ بھی بڑی مشکل سے سوئی کی نوک یا پھر باریک لکڑی سے لگائی جاتی تھی
چاند رات اور مہندی دونوں ساتھ ساتھ چلتے ہیں کیونکہ عید کی تمام تیاریاں تو پہلے ہی کرلی جاتی ہیں۔ مہینےبھر پہلے سے کپڑے بن جاتے ہیں۔ جوتے خرید لیے جاتے ہیں۔ چوڑیاں، میک اپ، ہر چیز کا انتظام ہو جاتا ہے۔ حتیٰ کہ مہمانوں کی تواضع کے لیے بھی تمام چیزیں ایک دو دن پہلے آجاتی ہیں، مگر ہاتھوں پر خوبصورت نقش و نگار صرف اور صرف چاند رات کو بنائے جاتے ہیں۔ چاند نظر آنے کے انتظار میں تمام سہیلیاں مل کر بیٹھ جاتی ہیں ایک دوسرے کو مہندی لگاتی ہیں کیونکہ بغیر مہندی کے عید، عید نہیں لگتی۔ بڑی عمر کی خواتین اگرچہ بہت زیادہ میک اپ نہیں کرتیں، جھلملاتے کپڑوں سے بھی گریز کرتی ہیں مگر مہندی بڑے شوق سے لگواتی ہیں۔
صدیوں سے مہندی کو خواتین کے لیے آرائش و زیبائش کا قدرتی ذریعہ سمجھا جاتا ہے قدیم زمانے میں مہندی کے پتوں کو بھگویا جاتا تھا پھر اسے پیس کر اس کا آمیزہ بنایا جاتا تھا تب کہیں جاکر وہ مہندی لگانے کے قابل ہوتی تھی۔ وہ بھی بڑی مشکل سے سوئی کی نوک یا پھر باریک لکڑی سے لگائی جاتی تھی اور پھر مہندی نے بھی ترقی کی اور کون مہندی کی شکل میں سامنے آئی تو مہندی ہتھیلی سے نکل کر کلائیوں اور اب بازوئوں تک لگنے لگی ہے۔ پہلے بازوبند سونے کے پہنے جاتے تھے۔ اب مہندی سے خوبصورت نقش و نگار بنائے جاتے ہیں ماضی کی نسبت اس میں وقت بھی کم لگتا ہے اور ہاتھوں پر رنگ بھی جلد آجاتا ہے پہلے زمانے میں ہتھیلیوں پر مہندی لگاکر سوکھنے کا انتظار کیا جاتا تھا اور کئی گھنٹوں بعد ہاتھوں میں رنگ آتا تھا۔ جبکہ اب یہ صرف چند گھنٹوں کا کام رہ گیا ہے لیکن اس مہندی کا رنگ جلد اتر جاتا ہے۔
کسی زمانے میں مہندی صرف شادی بیاہ، عید اور دیگر تقریبات میں لگائی جاتی تھی لیکن اب کون مہندی اور بیوٹی پارلرز کی بدولت ہمہ وقت آپ کو رنگین ہتھیلیاں نظر آتی ہیں۔ سوڈانی، عربی اور میمنی مہندی زیادہ مشہور ہے۔ صرف چند روپوں میں اپنے ہاتھ پیروں کو خوبصورت نقش و نگار دینا کوئی مشکل کام نہیں رہا۔ جتنی اچھی مہندی لگی ہوتی ہے لوگ اتنا ہی شوق سے دیکھتے ہیں اور تعریف کرتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ اب مہندی تقاریب تک محدود نہیں رہی بلکہ فیشن کا روپ دھار چکی ہے اور لڑکیاں اسے آرائش و زیبائش کے لیے ایک قدرتی زیور کے طور پر استعمال کرنے لگی ہیں۔
مغرب میں مہندی عروج پکڑ رہی ہے:مغرب میں تو اس کا کریز اتنا بڑھ رہا ہے کہ وہاں کی خواتین ہاتھوں اور پائوں کے علاوہ پنڈلیوں اور کہنیوں کے اوپر حتیٰ کے گلے میں نیکلس کی جگہ بھی نت نئے ڈیزائنوں میں مہندی لگاتی ہیں اور ایسا کرتے ہوئے وہ کسی خاص موقع کا انتظار نہیں کرتی۔ ہمارے یہاں مہندی کے بغیر شادی مکمل ہے نہ عید۔ کیونکہ عید کے تصور سے ہی مہندی لگے خوبصورت ہاتھ، کھنکتی چوڑیاں اور مہندی لگی کلائیاں سامنے آجاتی ہیں ان ہاتھوں کو عیدی دینا بھی اچھا لگتا ہے۔
مہندی کے بارے میں چند اہم باتیں
مہندی رچنے کی مدت:مہندی سات سے تیس دن تک چلتی ہے اس کا دارومدار جلد کی ساخت اور اس بات پر ہوتا ہے کہ آپ کتنی دیر تک مہندی ہاتھوں لگائے رکھتی ہیں مزید یہ کہ جو مہندی لگائی جاری ہے اس کی کوالٹی کس حد تک بہتر ہے۔
مہندی رچنے کی سب سے اچھی جگہ
مہندی کا رنگ ہاتھ اور پائوں کے کناروں اور تلوئوں پر زیادہ اچھی طرح رچتا ہے۔ مہندی کا عرق ایسے مقامات پر زیادہ اچھی طرح رنگ جماتا ہے جہاں مسامات نہ ہوں یا مسامات انتہائی چھوٹے ہوں مثلاً ہاتھ، پیر او رگردن وغیرہ۔
مہندی پر جلد کی رنگت کے اثرات
عام طور پر سمجھا جاتا ہے کہ مہندی زیادہ تر گوری رنگت پر اچھی لگتی ہے جبکہ حقیقت میں مہندی کے رچنے کا تعلق رنگت پر نہیں ہوتا اس بات کا انحصار خواتین کے خون کی نوعیت پر ہوتا ہے مہندی کے ماہرین کہتے ہیں کہ حنا کا رنگ گرم خون والے افراد پر زیادہ گہرا رچتا ہے۔
مہندی کا رنگ اتارنے کے لیے
(۱)Suntan لوشن ملیئے۔(۲)کلورین آمیز پانی میں جلد کو دھوئیے۔(۳)ہاتھوں سے برتن یا کپڑے دھونے سے بھی مہندی اتر جاتی ہے۔(۴)جب ڈیزائن مدھم پڑ جائے تو ایک روٹی کی گیند بناکر ہائیڈروجن پر آکسائیڈ میں ڈبوئیے اور جلد پر ملیے باقی نشانات بھی غائب ہو جائیں گے۔
حضرت حکیم محمد طارق محمود مجذوبی چغتائی (دامت برکاتہم) فاضل طب و جراحت ہیں اور پاکستان کونسل سے رجسٹرڈ پریکٹیشنز ہیں۔حضرت (دامت برکاتہم) ماہنامہ عبقری کے ایڈیٹر اور طب نبوی اور جدید سائنس‘ روحانیت‘ صوفی ازم پر تقریباً 250 سے زائد کتابوں کے محقق اور مصنف ہیں۔ ان کی کتب اور تالیفات کا ترجمہ کئی زبانوں میں ہوچکا ہے۔ حضرت (دامت برکاتہم) آقا سرور کونین ﷺ کی پُرامن شریعت اور مسنون اعمال سے مزین، راحت والی زندگی کا پیغام اُمت کو دے رہے ہیں۔ مزید پڑھیں